لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) انٹرنیشنل کمپنی ”اوبر“ نے پاکستان میں اپنی خدمات فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور سمارٹ فون ایپلی کیشن کے ذریعے ٹیکسی فراہم کر رہی ہے لیکن پاکستان کی ایک غیر معروف کمپنی کچھ نئے آئیڈیاز اور پرانی ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر ”ابر“ کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہے اور اس کا ٹارگٹ ٹیکسی استعمال کرنے والے افراد نہیں بلکہ ایسے رکشہ پر سفر کرنے والے لوگ ہیں۔
رکشی
( Rixi)
کے نام سے کام کرنے والی یہ سروس اپنے صارفین کو کاروں کے بجائے رکشہ فراہم کرتی ہے اور اس کیلئے مہنگے سمارٹ فون کا ہونا بھی ضروری نہیں کیونکہ یہ سروس ایس ایم ایس کا استعمال کرتی ہے۔ پاکستان میں 130 ملین کے قریب موبائل فون رجسٹرڈ ہیں لیکن ان میں سے بہت کم افراد موبائل انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ٹیکنالوجی کا استعمال کم جانتے ہیں۔
”رکشی“ کے بانی عدنان خواجہ کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی لاہور میں 1,000 رکشہ ڈرائیورز کیساتھ کام کر رہی ہے جہاں بہت سے لوگ اس چھوٹے، شور مچانے والی تین پہیوں والے رکشے پر انحصار کرتے ہیں جو لاہور کی رش زدہ سڑکوں پر سفر کرنے کیلئے بہترین سواری ہے۔
”رکشی“ کے بانی عدنان خواجہ کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی لاہور میں 1,000 رکشہ ڈرائیورز کیساتھ کام کر رہی ہے جہاں بہت سے لوگ اس چھوٹے، شور مچانے والی تین پہیوں والے رکشے پر انحصار کرتے ہیں جو لاہور کی رش زدہ سڑکوں پر سفر کرنے کیلئے بہترین سواری ہے۔
”ابر“ نے رکشی کے بزنس ماڈل پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ کمپنی پہلے ہی ایس ایم ایس پر مبنی سروس کا آزمائش کر چکی ہے اس لئے پاکستان میں اس طرح کی سروس کا آغاز کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
پاکستان میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں کام کرنے والے آدم غزنوی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ابر جیسی ٹیکسی سروسز اتنی کامیاب نہیں ہو سکتیں لیکن رکشہ سروس کیلئے ایک ایسی ہی ایپلی کیشن بڑی کامیاب اور منافع بخش ثابت ہو سکتی ہے اور اگر کوئی اس مسئلے کا حل نکال لے تو یہ بہت بڑی مارکیٹ ہے۔
رکشی کے مطابق 2013ءمیں سروس کے آغاز سے اب تک 100,000 صارفین سفر کر چکے ہیں اور روزانہ تقریباً 100
لوگ اس سروس کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ رکشہ یونین کے سربراہ مجید غوری کا کہنا ہے کہ ”رکشہ ڈرائیورز آن لائن ایپلی کیشنز کے بارے میں کچھ نہیں جانتے،وہ صرف روزانہ کے حساب سے معاوضہ چاہتے ہیں“۔
آدم غزنوی کے مطابق رکشہ ڈرائیوروں اور ان میں سفر کرنے والے افراد کا، روائتی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے کم تعلیم یافتہ ہونا اس سروس کے لئے ایپلی کیشن کے استعمال میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے تاہم اگر کسی طرح سے اس معاملے کا حل نکال لیا جائے تو یہ سروس بہت بہتر کام کر سکتی ہے۔
پاکستان میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں کام کرنے والے آدم غزنوی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ابر جیسی ٹیکسی سروسز اتنی کامیاب نہیں ہو سکتیں لیکن رکشہ سروس کیلئے ایک ایسی ہی ایپلی کیشن بڑی کامیاب اور منافع بخش ثابت ہو سکتی ہے اور اگر کوئی اس مسئلے کا حل نکال لے تو یہ بہت بڑی مارکیٹ ہے۔
رکشی کے مطابق 2013ءمیں سروس کے آغاز سے اب تک 100,000 صارفین سفر کر چکے ہیں اور روزانہ تقریباً 100
لوگ اس سروس کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ رکشہ یونین کے سربراہ مجید غوری کا کہنا ہے کہ ”رکشہ ڈرائیورز آن لائن ایپلی کیشنز کے بارے میں کچھ نہیں جانتے،وہ صرف روزانہ کے حساب سے معاوضہ چاہتے ہیں“۔
آدم غزنوی کے مطابق رکشہ ڈرائیوروں اور ان میں سفر کرنے والے افراد کا، روائتی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے کم تعلیم یافتہ ہونا اس سروس کے لئے ایپلی کیشن کے استعمال میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے تاہم اگر کسی طرح سے اس معاملے کا حل نکال لیا جائے تو یہ سروس بہت بہتر کام کر سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment
Thanks For Comments